چلنے کا حوصلہ ہے نہ منزل کی آرزو
چلنے کا حوصلہ ہے نہ منزل کی آرزو
بس رہ گئی ہے مرشدِ کامل کی آرزو
۔ ۔ ۔
عارف وصال ترکِ تمنا سے پا گیا
الجھی رہی وصول میں جاہل کی آرزو
۔ ۔ ۔
موجیں بتا رہی ہیں سمندر کی تشنگی
پوچھے کوئی تو ریت سے ساحل کی آرزو
۔ ۔ ۔
پھلواری واری واری ہے ، گلزار زار زار
پھولوں میں بس رہی ہے عنادل کی آرزو
۔ ۔ ۔
پیتے پلاتے رہنا بقدرِ سبو سبھی
کھاتی رہے گی ورنہ وسائل کی آرزو
۔ ۔ ۔
مت آنا میرے آخری دیدار کے لیے
ممکن ہے ، کچھ مزید ہو قاتل کی آرزو
۔ ۔ ۔
پورے ہوں کاش اسامہ! فرائض کسی طرح
فرصت میں پھر کریں گے نوافل کی آرزو
۔ ۔ ۔
محمد اسامہ سَرؔسَری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے سے نوازیے۔