شاعری میں وزن و عروض کی اہمیت و افادیت:

 شاعری میں وزن و عروض کی اہمیت و افادیت

آج ایک دوست کو فنیاتِ شاعری کورس کے دسویں سبق میں وزنِ شعری کی اہمیت و افادیت سمجھانے کی کوشش کی تو اچھی مثال اللہ تعالیٰ نے ذہن میں ڈالی، سوچا افادۂ عام کے لیے آپ سب کی خدمت میں بھی پیش کردوں۔
دیکھیں، نوآموز شعراء کو اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ جب سے وزن (فاعلن ، فعولن وغیرہ) سیکھنا شروع کیا ہے تب سے شاعری ہی کم ہوگئی ہے، بلکہ اب تو شعر کہنے کا دل ہی نہیں چاہتا۔
دراصل ہم یہاں یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ وزنِ شعری کیا ہے اور کیوں ضروری ہے اور کس قدر فائدے مند ہے؟
اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے آپ کا معصوم سا ننھا بیٹا جسے آپ ابھی چلنا سکھارہے ہیں، آپ اپنے اس شہزادے کو سنبھالنے کے لیے کتنی محنت کرتے ہیں، کتنا خیال رکھتے ہیں، حتی کہ اس کی وجہ سے آپ کی اپنی بہت سی اہم مصروفیات بھی بسا اوقات آپ کو نظر انداز کرنی پڑجاتی ہیں، لیکن آپ گھبراتے نہیں ہیں، بلکہ یہ سوچ کر اپنے لاڈلے پر توجہ دے رہے ہوتے ہیں کہ یہ اول تو آپ ہی کی ذمہ داری ہے، دوسرا یہ محنت آپ کی وقتی ہے، چنانچہ کچھ عرصے بعد وہ وقت بھی آتا ہے کہ آپ کو اپنے لخت جگر پر زیادہ توجہ نہیں دینی پڑ رہی ہوتی، بلکہ اب وہ اپنے آپ کو خود سنبھالنے لگا ہوتا ہے، اب دھیرے دھیرے آپ کے ذاتی مشاغل جو پہلے متاثر ہوچکے تھے وہ شروع ہوجاتے ہیں، ان دنوں آپ یہ سوچ کر بھی چراغ پا نہیں ہوتے کہ جس نورِ نظر پر اتنی محنت کی تھی وہ میری دکان کےلیے آج ایک چراغ کی ہی حیثیت اختیار کرجائے، کیونکہ آپ کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا یہ فرزند ارجمند ایک دن آپ کے لیے چشم و چراغ بن ہی جائے گا، چنانچہ وہ دن بھی آہی جاتا ہے جب لوگ بڑی رشک بھری نگاہوں سے آپ کو اور آپ کے صاحبزادے کو دیکھ کر سوچ رہے ہوتے ہیں کہ ان دونوں باپ بیٹا میں کتنا اتحاد ہے اور دونوں نے مل کر کاروبار کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے، اب ان لوگوں کو کون سمجھائے کہ جس ولی عہد بیٹے پر وہ آج رشک کر رہے ہیں اس کی خاطر اس کے بوڑھے باپ نے کئی سال تک اپنی اہم ترین کتنی ہی مصروفیات کو یکسر نظر انداز کردیا تھا۔
اب آئیے وزنِ شعری کی طرف۔
شاعری کو نثر سے ممتاز کرنے والی اصل چیز اس کی خوبصورتی ہے اور خوبصورتی کا جتنا تعلق معنی اور خیال کے ساتھ ہوتا ہے اس سے زیادہ لفظ اور اس کی ادائیگی کے ساتھ ہوتا ہے، الفاظ کی ادائیگی میں اگر آہنگ اور غنائیت بھی در آئے تو یہ حسن دوبالا ہوجاتا ہے، یہی دوبالا حسن اپنے کلام میں پیدا کرکے لوگوں کی رشک بھری داد وصول کرنے والا شاعر اپنی شاعری کے ابتدائی دنوں میں نہ جانے اپنے کتنے ہی اہم خیالات اور مضامین کو فقط اس لیے دبا رہا ہوتا ہے کہ پہلے کلام کو موزوں کرنا سیکھ جاؤں۔
خلاصہ یہ کہ موزوں گوئی اول اول مشکل معلوم ہوتی ہے، یہاں تک کہ زود گوئی جاتی رہتی ہے، پھر دھیرے دھیرے کلام کو موزوں کرنا آسان ہوجاتا ہےتو شاعر کو فقط اپنے تخیل پر محنت کرنی ہوتی ہے، مگر اس سب کے بعد تیسرا اور آخری مرحلہ یہ بھی آتا ہے کہ یہی وزن و عروض شاعر کے لیے تخیل کی محفل سجانے میں سب سے بڑا معاون اور تیز ترین کارکن کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔ 🙂
طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری

تبصرے

اہم نگارشات

ایک ہنستی...مسکراتی...مزاحیہ...تحریر

اردو لغات/ڈکشنریان

ترجمۂ قرآن کریم سیکھنے کا نہایت آسان طریقہ

اے پیاری ماں!