علمِ ابجد کے اصول و ضوابط اور شرعی حیثیت
علمِ ابجد کے اصول و ضوابط اور شرعی حیثیت:
الف سے ے تک جو ترتیب اردو قاعدے کی پہلی تختی میں لکھی ہوتی ہے انھیں ”حروفِ ہجا“ یا ”حروفِ تہجی“ کہا جاتا ہے۔
جبکہ درج ذیل ترتیب کے مطابق حروف کو ”حروفِ ابجد“ کہتے ہیں، ان میں سے ہر حرف کا ایک نمبر مخصوص کرلیا گیا ہے، چونکہ یہ ترتیب اردو میں عربی سے آئی ہے اس لیے عربی حروف کے مطابق نمبر کچھ اس طرح ہیں:
جبکہ درج ذیل ترتیب کے مطابق حروف کو ”حروفِ ابجد“ کہتے ہیں، ان میں سے ہر حرف کا ایک نمبر مخصوص کرلیا گیا ہے، چونکہ یہ ترتیب اردو میں عربی سے آئی ہے اس لیے عربی حروف کے مطابق نمبر کچھ اس طرح ہیں:
(ا= 1) (ب= 2) (ج= 3) (د= 4) (ہ= 5)
(و= 6) (ز= 7) (ح= 8 ) (ط= 9) (ی= 10)
(ک= 20) (ل= 30) (م= 40) (ن= 50)
(س= 60) (ع= 70) (ف= 80) (ص= 90)
(ق= 100) (ر= 200) (ش= 300) (ت= 400) (ث= 500)
(خ= 600) (ذ= 700) (ض= 800) (ظ= 900) (غ= 1000)
1سے 10 تک ہر اکائی کا ایک حرف مقرر ہے، پھر 9 سے 1یعنی 1000 سے 100 تک ہر دہائی کا ایک حرف مقرر ہے، پھر 90تک ہر ہر سینکڑے اور ہزار کا ایک حرف مقرر ہے۔
اسے یاد کرنے کے لیے یہ آٹھ الفاظ رٹ لیے جاتے ہیں:
چونکہ اس ترتیب کے مطابق پہلے چار حروف ”ا ب ج د“ ہیں، اس لیے حروف کے ان طے شدہ نمبرات کو جاننے کا نام ”علمِ ابجد“ رکھ دیا گیا ہے۔
نیز حروف کے اس طرح نمبر نکالنے کو ”حسابِ جُمَل“ کہتے ہیں۔
(الف) تاریخ مقرر کرنے میں، جیسے شیخ سعدی رحمہ اللہ کی تاریخ وفات کے لیے لفظ ”خاص“ مقرر کیا گیا، اس کا فائدہ صرف اتنا ہے کہ تاریخ یاد رہ جاتی ہے، اسی طرح کچھ لوگ اپنے بچوں کی یا خود اپنی تاریخ پیدائیش کے لیے بھی کوئی اچھا سا لفظ یا فقرہ بنا لیتے ہیں، یہ کام میں اور آپ بھی کرسکتے ہیں، بعض لوگ تو اس چیز میں اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ پورا پورا مصرع یا شعر تک ایسا کہہ جاتے ہیں کہ اس کے تمام حروف کے ابجدی نمبرات کا مجموعہ کوئی خاص عدد ہوتا ہے۔
(ب) مختلف چیزوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے، جیسے ،اللہ کے ناموں کے لیے ۷۸۶”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ کے لیے تعویذوں میں مختلف ہندسے، اسی طرح درس نظامی کی منہ“ سے مراد ”حد مِنہ“ ۱۲کتب میں حواشی کے آخر میں ”ہوتا ہے یعنی یہاں عبارت کی آخری حد ہے اور عبارت مکمل ہوچکی ہے۔
(ج) حروف ابجد کو گنتی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، مثلا ایک کے لیے الف، دو کے لیے ب، تین کے لیے ج، چار کے لیے د، وعلی ھٰذا القیاس، یہ بات دھیان میں رکھنا بہت ضروری ہے، بعض لوگ ناواقفیت کی وجہ سےچند باتوں کے شروع میں الف ب ج د کے بجائے الف ب ت ث لکھنا شروع کردیتے ہیں، اسی طرح بعض لوگ پہلی چار چیزوں سے پہلے تو ”الف ب ج د“ ہی لکھتے ہیں، پھر پانچویں سے پہلے بجائے ”ہ“ لکھنے کے ”ذ“ سے شروع دیتے ہیں۔
(د) گنتی کے لیے حروف ابجد کے استعمال کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ ہم کچھ چیزیں نمبر وار پیش کے لیے ان سے پہلے لکھنا شروع کردیتے ہیں، مگر پھر کسی ایک نمبر کے ۳۔۲۔۱تحت ایک اور ضمنی گنتی شروع کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس صورت میں ہمیںکوئی اور طریقہٴ شمار درکار ہوتا ہے، تب ہمیں یہ ابجدی گنتی بھی کام آجاتی ہے۔
(ب) کسی بھی علم یا فن کی ابتدائی باتوں اور بنیادی اصول کے لیے بھی ”ابجد“ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے میں اس علم کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوں۔
(ج) اردو میں ایک محاورہ رائج ہے ”ابجد خواں ہونا“، اس ابجد سے مراد بھی یہی علم ابجد ہے، جبکہ ”خواں“ کا مطلب ہے ”پڑھنے والا“، اس محاورے کو کوئی شخص اپنی جہالت کے اعتراف یا کسی اور کی کم علمی ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، جیسے میں تو ابھی ابجد خواں ہوں، اور اگر عاجزی کچھ زیادہ ہی چھلک رہی ہو تو بعض لوگ یوں بھی کہہ دیتے ہیں کہ ”اجی! ہم تو ابھی ابجد خواں بھی نہیں بن سکے ہیں۔“
اَبْجَد، هَوَّز، حُطِّی، کَلِمَن، سَعْفَص، قَرَشَت، ثَخَّذ، ضَظَّغ
اردو میں جو حروف اضافی ہیں ان کو ملتے جلتے حرف والا نمبر 400نمبر ہی دیا جاتا ہے جیسے ٹ کے بھی ت کی طرح مقرر ہیں، اسی طرح چ کو ج، ڈ کو د، ڑ کو ر، ژ کو ز، گ کو ک 1 اور ے کو ی والے نمبر ہی دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ء کا نمبر ہے خواہ شروع میں ہو یا درمیان میں یا آخر میں، نیز دو نمبر ہیں۔5چشمی ہاء (ھ) کے بھی ”ہ“ کی طرح چونکہ اس ترتیب کے مطابق پہلے چار حروف ”ا ب ج د“ ہیں، اس لیے حروف کے ان طے شدہ نمبرات کو جاننے کا نام ”علمِ ابجد“ رکھ دیا گیا ہے۔
نیز حروف کے اس طرح نمبر نکالنے کو ”حسابِ جُمَل“ کہتے ہیں۔
علمِ ابجد کا استعمال اور فوائد
ان حروف کی تاریخی باتیں بہت پیچیدہ ہیں، اس لیے اس کی شرعی حیثیت پر بات کرنے کا نہ یہ موقع ہے اور نہ ہی اس موضوع پر معتدل رائے قائم کرنا آسان ہے، تاہم یہ بات یقینی ہے کہ مسلمانوں نے ان حروف اور ان کے نمبرات کو درج ذیل چار مواقع میں کثرت سے استعمال کیا ہے:(الف) تاریخ مقرر کرنے میں، جیسے شیخ سعدی رحمہ اللہ کی تاریخ وفات کے لیے لفظ ”خاص“ مقرر کیا گیا، اس کا فائدہ صرف اتنا ہے کہ تاریخ یاد رہ جاتی ہے، اسی طرح کچھ لوگ اپنے بچوں کی یا خود اپنی تاریخ پیدائیش کے لیے بھی کوئی اچھا سا لفظ یا فقرہ بنا لیتے ہیں، یہ کام میں اور آپ بھی کرسکتے ہیں، بعض لوگ تو اس چیز میں اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ پورا پورا مصرع یا شعر تک ایسا کہہ جاتے ہیں کہ اس کے تمام حروف کے ابجدی نمبرات کا مجموعہ کوئی خاص عدد ہوتا ہے۔
(ب) مختلف چیزوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے، جیسے ،اللہ کے ناموں کے لیے ۷۸۶”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ کے لیے تعویذوں میں مختلف ہندسے، اسی طرح درس نظامی کی منہ“ سے مراد ”حد مِنہ“ ۱۲کتب میں حواشی کے آخر میں ”ہوتا ہے یعنی یہاں عبارت کی آخری حد ہے اور عبارت مکمل ہوچکی ہے۔
(ج) حروف ابجد کو گنتی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، مثلا ایک کے لیے الف، دو کے لیے ب، تین کے لیے ج، چار کے لیے د، وعلی ھٰذا القیاس، یہ بات دھیان میں رکھنا بہت ضروری ہے، بعض لوگ ناواقفیت کی وجہ سےچند باتوں کے شروع میں الف ب ج د کے بجائے الف ب ت ث لکھنا شروع کردیتے ہیں، اسی طرح بعض لوگ پہلی چار چیزوں سے پہلے تو ”الف ب ج د“ ہی لکھتے ہیں، پھر پانچویں سے پہلے بجائے ”ہ“ لکھنے کے ”ذ“ سے شروع دیتے ہیں۔
(د) گنتی کے لیے حروف ابجد کے استعمال کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ ہم کچھ چیزیں نمبر وار پیش کے لیے ان سے پہلے لکھنا شروع کردیتے ہیں، مگر پھر کسی ایک نمبر کے ۳۔۲۔۱تحت ایک اور ضمنی گنتی شروع کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس صورت میں ہمیںکوئی اور طریقہٴ شمار درکار ہوتا ہے، تب ہمیں یہ ابجدی گنتی بھی کام آجاتی ہے۔
چند اہم باتیں
(الف) علم ابجد کے مطابق صرف لکھے ہوئے حروف کا اعتبار کیا جاتا ہے، لہٰذا جس الف کی جگہ کھڑا زبر ہو تو اسے شمار نہیں کیا جاتا، جیسے لفظ ”اللہ“ میں پڑھنے کے لحاظ سے الف، پھر لام، پھر لام ، پھر الف اور پھر ہ ہے، مگر ابجد کے لحاظ سے اسے ”الف+ل+ل+ہ“ شمار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس علمِ عروض کے اندر وہ حروف شمار کیے جاتے ہیں جو بولے جارہے ہوں اور جو حروف لکھے ہوئے ہوں اور ادا نہ کیے جاتے ہوں تو انھیں علم عروض میں شمار نہیں کیا جاتا۔(ب) کسی بھی علم یا فن کی ابتدائی باتوں اور بنیادی اصول کے لیے بھی ”ابجد“ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے میں اس علم کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوں۔
(ج) اردو میں ایک محاورہ رائج ہے ”ابجد خواں ہونا“، اس ابجد سے مراد بھی یہی علم ابجد ہے، جبکہ ”خواں“ کا مطلب ہے ”پڑھنے والا“، اس محاورے کو کوئی شخص اپنی جہالت کے اعتراف یا کسی اور کی کم علمی ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، جیسے میں تو ابھی ابجد خواں ہوں، اور اگر عاجزی کچھ زیادہ ہی چھلک رہی ہو تو بعض لوگ یوں بھی کہہ دیتے ہیں کہ ”اجی! ہم تو ابھی ابجد خواں بھی نہیں بن سکے ہیں۔“
چند مثالیں
(الف) لفظ ”قلم“ کے ابجدی نمبر 170 ہیں۔ (ق= 100)+ (ل= 30)+ (م= 40)
(ب) لفظ ”علم“ اور اسی طرح لفظ ”عمل“ کے ابجدی نمبر 140 ہیں۔
(ع= 70)+ (ل= 30)+ (م 40)
(ج) ”لکھاری“ کے ابجدی نمبر 266ہیں۔
(ل= 30)+ (ک= 20)+ (ھ= 5)+ (ا= 1)+ (ر= 200)+ (ی =10)
(د) ”ادیب“ کے ابجدی نمبر 17 ہیں۔
(ا= 1)+(د= 4)+(ی=10)+ (ب= 2)
(ہ) ”تحریر“ کے ابجدی نمبر 818 ہیں۔
(ت=400)+(ح=8)+(ر=200)+(ی=10)+(ر=200)
(و)”کتاب“ کے ابجدی نمبر 423 ہیں۔
(ک=20)+(ت=400)+(ا=1)+(ب=2)
(ز) ”ابجد“ کے ابجدی نمبر 10ہیں۔
(ا=1)+(ب=2)+(ج=3)+(د=4)
حروفِ ابجد کو شعراء، کاتبین اور تعویذ لکھنے والے اچھے اور برے کاموں میں استعمال کرتے ہیں۔
شرعًا اس کا کوئی تعلق مستقبل کی خبروں سے نہیں، بلکہ مستقبل کی خبروں کو معلوم کرلینے کا دعوی کرنا ہی اسلامی عقائد کے خلاف ہے۔
ابجد کے استعمال کا حکم یہ ہے کہ جائز کاموں کے لیے اس کا استعمال جائز اور ناجائز مقاصد کے لیے ناجائز ہے۔
ابجد کی شرعی حیثیت
حروفِ ابجد کو شعراء، کاتبین اور تعویذ لکھنے والے اچھے اور برے کاموں میں استعمال کرتے ہیں۔
شرعًا اس کا کوئی تعلق مستقبل کی خبروں سے نہیں، بلکہ مستقبل کی خبروں کو معلوم کرلینے کا دعوی کرنا ہی اسلامی عقائد کے خلاف ہے۔
ابجد کے استعمال کا حکم یہ ہے کہ جائز کاموں کے لیے اس کا استعمال جائز اور ناجائز مقاصد کے لیے ناجائز ہے۔
طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے سے نوازیے۔