حدیث اور سنت میں فرق:


بعض لوگ عوام الناس کو ایک مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’فلاں حدیث‘‘ میں یہ آتا ہے، لہٰذا یہ کام کرنا چاہیے اور عام لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہم حدیث پر عمل کیوں نہیں کرتے ، جیسا کہ رفع یدین اور آمین بالجہر کی حدیثیں موجود ہیں۔ 
اس خلجان سے بچنے کے لیے حدیث اور سنت کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔سنت شریعت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قابل اتباع قول، فعل اور تقریر کو کہتے ہیں، صحابۂ کرام،خصوصاً خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے افعال بھی سنت کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کی طرح ان کی سنت پر بھی عمل کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
’’عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ۔‘‘
جبکہ حدیث حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول ، فعل اور تقریر کو کہتے ہیں، خواہ وہ قابل اتباع ہو یا نہ ہو۔
حضرت ابو طفیل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کی قوم کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے رمل کیا اور یہ سنت ہے تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’انھوں نے سچ بھی کہا اور جھوٹ بھی کہا… سچ یہ کہا کہ اللہ کے رسول نے طواف کے دوران میں رمل کیا اور جھوٹ یہ کہا کہ یہ سنت ہے، حالانکہ یہ سنت نہیں ہے۔‘‘
(أبوداود، کتاب المناسک، باب فی الرمل:۱۸۸۷)
اس حدیث سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ طواف کے دوران میں رمل کرنے کی حدیث تو ہے، مگر یہ سنت نہیں ہے۔
مذکورہ تفصیل سے ہمیں دو باتیں معلوم ہوئیں:
1: ہر سنت حدیث ہے، مگر ہر حدیث سنت نہیں۔
2: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت پر عمل کرنے کا حکم فرمایا ہے حدیث پر عمل کرنے کا نہیں۔
اس لیے کہ بعض احادیث ایسی ہیں جن پر عمل کرنا امتیوں کے لیے ممکن نہیں جیسے حدیثِ معراج اور بعض احادیث میں ایسے اعمال اور افعال ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھے اور امتیوں کے لیے جائز نہیں، جیسے گیارہ نکاح اور بعض احادیث میں ایسے اعمال اور افعال کا ذکر ہے جو کسی وقتی ضرورت کے تحت بیانِ جواز کے لیے تھے، جیسے ضرورت کے وقت کھڑے ہوکر پیشاب کرنا، اسی طرح بعض احادیث میں ایسے اعمال اور افعال کا ذکر ہے جو اب منسوخ ہوچکے ہیں جیسے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا۔
لہٰذا ہمیں عمل کے لیے سنت معلوم کرنی چاہیے نہ کہ حدیث، یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ’’اہل السنۃ والجماعۃ‘‘  کہلواتے ہیں۔
البتہ تمام ذخیرۂ احادیث کا سمجھنا اور اس کو بحفاظت آگے پہنچانا یہ علمائے کرام کا کام اور ان کی ذمہ داری ہے اور اگر کوئی عام شخص یہ ذمہ داری ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے کچھ سال مستقل علم حدیث حاصل کرنے کی ضرورت ہے ، اس سے قبل اس کے لیے بالکل مناسب نہیں کہ حدیث کی سند یا متن سے متعلق کسی بھی قسم کا کلام کرے۔
واللہ اعلم بالصواب۔

تبصرے

اہم نگارشات

ایک ہنستی...مسکراتی...مزاحیہ...تحریر

اردو لغات/ڈکشنریان

ترجمۂ قرآن کریم سیکھنے کا نہایت آسان طریقہ

اے پیاری ماں!